بولوں اگر میں جھوٹ تو مر جائے گا ضمیر
کہہ دوں اگر میں سچ تو مجھے ماردیں گے لوگ
تم ملاتے ہو بچھڑے لوگوں کو
ایک میرا بھی یار ہے، سائیں
کیوں اک دعا میں اٹک کے رہ گیا ہے دل
کیوں مجھ سے تیرے سوا کچھ مانگا نہیں جاتا
ریزہ ریزہ کر کے بکھیردیتی ہے
بے پروا لوگوں سے، بے پناہ محبت
کوئی بھی نہیں تھا میرے پاس دلاسے کیلئے
میں اپنی ہی بانہوں میں سر دے کے رو پڑا
اس دل کو کون سمجھائے
خواب! خواب ہوتے ہیں
مجھ کو دبوکہ دے گیا میرا ذوق انتخاب
جو لوگ میرے تھے ہی نہیں وہی اچھے لگے
عجب سی، غضب سی
بے سبب سی، الجھنیں ہیں
چلو پھر سے کاغذوں پہ داستان درد لکھتے ہیں
زمانہ منتظر ہوگا غموں پہ مسکرانے کا
تمھارے جیسے ہزاروں آئے!ہزاروں گئے
ویسے تم نے اپنا نام کیا بتایا تھا
پھر یوں ہوا کہ صبر کی انگلی پکڑا کر ہم
اتنا چلے کہ راستے حیران ہو گئے
منت مانی جائے یا تعویز پلایا جا سکتا ہے
ربا
میرے سر سے کیسے عشق کا سایہ جا سکتا ہے
اک لفظ محبت کا اک حرف تسلی کا
جب اپنے لیے لکھا تو بہت روئے ہم
میں برا کیسے بن گیا صاحب
میں درد لکھتا ہوں کیسی کو دیتا تو نہیں
اب جو آجائیں تو اڑا دیتا ہوں ہنسی میں
دکھ اتنے بھی مجھ سے سنبھالے نہیں جاتے
لہجے سے اٹھ رہی تھی داستان درد
چہرہ بتا رہا تھا کہ سب کچھ گنوادیا
ایک ہی اپنا ملنے والا تھا
ایسا بچھڑا کہ ملا ہی نہیں
کہا تھانا! سکون تم ہو،
کہا تھانا! بے سکون مت کرنا۔
مجھے پڑھتے ہیں کئی لوگ مگر
مخاطب میں صرف تم سے ہوں
کوئی دیوار بھی نہیں
پھر بھی قید ہوں میں تجھ میں
تجھے اجاڑ کر بھی ترس نہیں آیا
لوگ میری داستاں سن کر روتے ہے
No comments:
Post a Comment