آخری بار اپنی
صفائی دیتا ہوں
صفائی دیتا ہوں
میں وہ نہیں جو دکھائی دیتا ہوں
ہے میرے دل کی گزارش کے مجھ کو مت چھوڑو
یہ میری جان کا تقاضہ ہے، اب بھی آجاو
دلاسہ دیتے ہوئے لوگ کیا سمجھ پاتے
پم ایک شخص نہیں کائنات ہارے تھے
نا میں باقی نا میری، میں باقی
میں نے خود کو تجھ پے وار دیا
مجھ کو میری زات کی حد تک نہ جانئیے
بےحدہوں، بےحساب ہوں، بےانتہاہوں
دل بھرنے کی دیر ہے بس
بہانے مل ہی جاتے ہیں
تو بھی نہ مل سکا عمر بھی رائیگاں گئی
تجھ سے تو خیر عشق تھا، خود سے بڑے گلے رہے
ہذاروں سے بگاڑی تھی تجھے اپنا بنایا تھا
حشر تک یاد رہے گا کسی سے دل لگایا تھا
گئی امید تو برباد ہو جاوں گا میں
جایئے تو پھر مجھے سچ مسچ بھلاتے جایئے
بے نام آرزو کی وجہ نہ پوچھیے
اک اجنبی تھا روح کا درد بن گیا
میں بگی اب خود سے ہوں جواب طلب
وہ مجھے، بے سوال چھوڑ گیا
نہیں ترک محبت پر وہ راضی
قیامت ہے کہ ہم سمجھارہے ہیں
جان کہہ کے پکارا تو لرز گئی میرے دل کی زمین
مڑ کے دیکھا تو مخاطب وہ کسی اور سے تھا
یوں غلط تو نہیں چہروں کا تصور بھی مگر
لوگ ویسے بھی نہیں، جیسے نظر آتے ہیں
بڑے سکون سے رخصت تو کر دیا اس کو
پھر اس کے بعد محبت نے انہتا کر دی
آو کچھ دیر تذکرہ ہی کر لیں
ان دنوں کا جب تم ہمارے تھے
نکال دیجئے دل سے ہماری یادوں کو
یقین کیجئے ہم میں وہ بات ہی نہ رہی
ہر بات جانتے ہوئے بھی، دل مانتا نہ تھا
ہم جانے اعتبار کے، کس مرحلے میں تھے
زنجیر جنوں کچھ اور کہنک ہم رقص تمنا دیکھیں گے
دنیا کا تماشا دیکھ چکے اب اپنا تماشا دیکھیں گے
دل مر حوم کو خدا بخشے
بڑی رونق لگائے رکھتا تھا
No comments:
Post a Comment